تحریر: ڈاکٹر شجاعت حسین
شرمداروں کو اب تک شرم نہیں آئی
دعا تو آئی مدد کی حیا نہیں آئی
ہو سوریا یا کہ یمن یا غزہ و فلسطین
خاموشی تو آئی لیکن حرکت نہیں آئی
7 اکتوبر، 2023 بروز شنبہ کا طلوع آفتاب، غروب صیہونیت نمودار ہوا۔ غاصب و قابض، دشمنٍ اسلام، انسان و امان، بر خلاف آیات قرآن کریم انتہائی محبت میں غرق، متکبر عرب شیخوں کی جانب سے نظر انداز کیا ہوا، مفلس، مجبور، شکستہ فلسطینیوں کے جذبے سے لبریز، عزم مستحکم، اپنے وطن کو آزاد کرانے کی تمنا و جستجو، زخمی فکر اور مساعی جمیلہ نے مشرق وسطی سے لیکر امریکہ، یوروپ، افریقہ اور ایشیا تک طوفان برپا کر دیا۔
یہ سمندری یا برفیلی طوفان نہیں ہے، بلکہ ماہرینٍ جنگ، تاریخ نویس، مصنفین اور محققین کا ماننا ہے کہ اسے مذہبی، ثقافتی، فکری اور صیہونیوں نے ستر 70 سال میں معصوم فلسطینیوں کا خون بہایا ہے جس کا نتیجہ "طوفان الا قصٰی" ہے۔ یہ بھی تحریر کرنا مناسب ہوگا کہ عام طور پر لوگوں کو نیوٹن کے قوت کے تیسرے قانون سے بخوبی واقفیت ہے۔ اس کا تیسرا قانون کہتا ہے کہ فطرت میں ہر عمل (قوت) کے لیے ایک مساوی اور مخالف ردعمل ہوتا ہے۔ صیہونیوں نے جتنا ظلم و جور، قتل و غارت گیری، رہائشیوں کا منہدم کرنا اور زبردستی رہائشیوں سے بے دخل کرنا، یہ سب مسلسل 70 سال میں دکھایا، بہر کیف اس کا ردعمل تصور کیا جارہا ہے۔
اس وقت پوری دنیا طوفان الا قصٰی کی طرف دیکھ رہی ہے کیونکہ جھوٹ پروپگنڈا نے خواب و خیال میں اسے عظیم، نایاب اور ناقابل تسخیر بنا دیا تھا۔ تجربہ کار، جنگی رپورٹر، دفاعی ماہرین اور اعلٰی فوجی افسران کا اختتامی و حتمی تجزیہ یہ ہے کہ 70 سال تک کا ناقابل شکست کا خاتمہ نظر آنے لگا ہے۔ واضح و تاریخی شکست، جنگی صلاحیتوں کا پروپگنڈا کا غلط ثابت ہونا، آئرن ڈوم، مرکاوا ٹینک، ریڈار، میزائل، فائٹر جیٹ اور غلط بیانی میں ماہر وغیرہ سوکھے پتوں کی طرح طوفان میں بکھر گیا۔ جو منصوبہ بندی میں مشہور تھے اور دوسرے ملکوں کے منصوبہ سازی اور اس کے ہینڈلر کا بینڈ بج گیا۔ انھیں تو کئی دنوں تک کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کیسا طوفان ہے اور ملک کے کتنے حصوں میں طوفان نے جنبش پیدا کی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا تھا کہ اسرائیل کی انٹلیجنس اتنا بہتر ہے کہ اس کا مقابلہ ناممکن ہے۔ اس میدان میں اس کی مہارت کی گونج اتنی پھیلی کے اسے دوسرے ممالک کا بھی خفیہ اداروں کی ذمہ داریاں حاصل کر لی تھی۔ لیکن ایک ایمانی طوفان نے سب قابلیت و صلاحیت کو جھوٹا پروپگنڈا اور مکڑی کا جالا ثابت کر دیا۔
کامیابی کسے کہتے ہیں اصل میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ باطل قوتوں کا نظریہ ہے جیسے فرعون کا کہنا تھا جو اوپر چڑھ جائے گا وہ کامیاب ہوگا۔ لیکن قرآن کریم کا سورۃ الاعلےٰ کی آیات مبارکہ کی تلاوت کریں "قد افلح من تزکےٰ" پس وہ فلاح پا گیا جس نے پاکیزگی اختیار کی۔ سورۃ الشمس کی آیت نمبر 9 پر نظر ڈالیں "یقینی طور پر تزکیۂ نفس کرنے والا فلاح پا گیا۔" قارئین کرام یہ نہ سمجھیں کہ یہودی آسمان سے بچوں، عورتوں، ضعیفوں، مریضوں، اسپتالوں، اسکولوں، رہائشیوں، کلیسوں اور یونیورسٹیوں پر بم برسا رہے ہیں تو انھیں کامیابی حاصل ہوئی۔ ان سب کے باوجود ایمان و حوصلے میں کمزور نہ کر سکا بلکہ ایک ماہ کی جنگ میں طوفان الا قصٰی میں مزید شدت آئی ہے۔ الحمدللہ!لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسرائیل، امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی جن جہازوں سے معصوم فلسطینیوں پر بم گرا رہے ہیں، ہیلی کاپٹروں سے گولیاں برسا رہے ہیں، مرکاوا ٹینک سے گولے داغ کر رہائشیوں کو مسمار کر رہے ہیں اور پانی کی ٹنکیوں کو برباد کر رہے ہیں ان سب میں پیٹرول اور گیس سعودی عرب، کویت، عمان، متحدہ عرب امارات کی فراہمی کیا ہوا ہے۔ آہ! کاش یہ مسلم حکمران معصوم اور بیکس فلسطینیوں کے کام آتے۔ ان کے ہمراہ کھڑے ہوتے۔ یہ تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
ساحل کے تماشائی ہر ڈوبنے والے پر
افسوس تو کرتے ہیں امداد نہیں کرتے
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے موجوں کا نظارہ کرتے ہیں:
اسرائیل اور امریکہ کے جرم میں عرب ممالک کے حکمران، اقوام متحدہ، میڈیا، انسانی حقوق کے ادارے، بین الاقوامی برادری اور عرب اتحاد شریک ہیں۔ ایک دفعہ پھر سے یہ ثابت ہو گیا کہ یہ وہی نسل ہے جس خیبر، خندق، احد، بدر و حنین میں پیٹھ دکھایا تھا۔
بہر حال آج بھی انسانیت اور ہمدردی باقی ہے۔ بین الاقوامی خطے میں کہیں نہ کہیں روزانہ اسرائیلی اور امریکی ظلم کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں جیسے مشیگن، واشنگٹن، سین ڈیگو، اٹلانٹا، ڈلس ٹیکساش، ڈاؤن ٹاؤن، نیویارک، شکاگو، ہارورڈ، کولمبیا یونیورسٹی، یونیورسٹی آف مشیگن، بروکلن کالج، آکسفورڈ کالج، لندن، دہلی، حیدرآباد، پیرس، میڈرڈ، روم، تہران، قم، مشہد، کراچی، اسلام آباد وغیرہ لیکن یہ بھی قابل ذکر ہے کہ عرب شیخوں نے امریکہ اور اسرائیل کے خلاف مظاہرے پر پابندیاں عائد کر رکھی ہے اور ان ملکوں کے شہریوں میں اتنی ہمت نہیں کہ مظاہرے میں شریک ہو سکیں۔ وجہ: ہمت، ایمان، ہمدردی، اور انسانیت کا فقدان اور خوف خدا نہیں اور آخرت پ یقین کامل نہیں!
ہر مسلمان کے لیے سورۃ العنکبوت کا مطالعہ لازمی ہے کیونکہ اس میں ماضی، حال اور مستقبل پوشیدہ ہی نہیں بلکہ عیاں اور عبرت ہے۔ "اور قارون و فرعون و ہامان کو بھی یاد دلاؤ جن کے پاس موسیٰ کھلی ہوئی نشانیاں لے کر آئے تو ان لوگوں نے زمین میں استکبار سے کام لیا حالانکہ وہ ہم سے آگے جانے والے نہیں تھے (آیت نمبر 39) پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ میں گرفتار کر لیا کسی پر آسمان سے پتھروں کی بارش کر دی کسی کو سیک آسمانی چیخ نے پکڑ لیا اور کسی کو زمین میں دھنسا دیا اور کسی کو پانی میں غرق کر دیا۔۔۔ بلکہ یہ لوگ خود اپنے نفس پر ظلم کر رہے ہیں (آیت نمبر 40) اور جن لوگوں نے خدا کو چھوڑ کر دوسرے سرپرست بنا لیے ہیں ان کی مثال مکڑی جیسی ہے کہ اس نے گھر تو بنا لیا لیکن سب سے کمزور گھر مکڑی کا گھر ہوتا ہے اگر ان لوگوں کے پاس علم و ادراک ہے۔" سورۃ روم میں ارشاد باری تعالٰی ہے کہ صاحب ایمان خوشی منائیں گے اللہ کی نصرت و امداد کے ذریعے۔ اسی سورۃ میں ایمان افروز آیت ہے کہ ہم نے مجرمین سے انتقام لیا اور ہمارا فرض تھا کہ صاحب ایمان کی مدد کریں۔
قرآن کریم فرقان حمید میں انسانوں کو کردار کے مطابق تین قسموں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ پہلی قسم میں صاحبان ایمان ہیں جن کا ایمان غیب پر ہے اور نماز انفاق وغیرہ کے پابند ہیں۔ دوسری قسم ان کفار کی ہے جو انتہائی متشدد ہیں کہ ان پر ہدایت کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا ہے۔ وہ بہرے ہیں کہ آواز حق سنتے نہیں ہیں، گونگے ہیں کہ کلمۂ حق نہیں بولتے ہیں اور اندھے ہیں کہ آیات حق کو نہیں دیکھتے ہیں اور ان سے کسی کار خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔
تیسری قسم ان منافقین کی ہے جن میں اتنی ہمت تو ہے کہ بظاہر کفر سے الگ ہو گئے ہیں لیکن دل میں ایسی بیماری رہ گئی ہے کہ اپنے اسلام ہی کو فریب دہی کا ذریعہ بنائے ہوئے ہیں اور اس طرح ان کی بیماری روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ یہ اپنے فساد کو اصلاح کا نام دیتے ہیں اور صاحبان ایمان کو بیوقوف سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کافروں سے قطع تعلق کرکے دنیاوی فوائد کے دروازے بند کر لیئے ہیں
ان تمام تزکروں کا مقصد یہ ہے کہ عالم انسانیت کے سامنے یہ سارے کردار ہیں، اس کے ذریعے اپنا محاسبہ کریں اور دوسروں کو بھی پہچان سکتے ہیں کہ آخر وہ کس قسم کا انسان ہے۔
یہ عجیب و غریب محل ہے کہ مصر کی آبادی 109 ملین ہے جبکہ لبنان کی آبادی صرف 5 ملین ہے۔ جغرافیائی مطالعہ و وضاحت کرتے ہوئے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ 109 ملین مصریوں کی فلسطین کے ساتھ مشترکہ سرحد ہے جبکہ لبنانیوں کی سرحدیں براہ راست صیہونی اسرائیل کے ساتھ ہے اس کے باوجود مصری عوام جو کہ لبنانی عوام سے 22 گنا زیادہ ہیں سڑکوں پر نکل کر سید حسن نصراللہ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ صیہونی ہستی پر کاری ضرب لگائی جائے اور پہلے ہی دن یعنی 7 اکتوبر سے لبنانی حزب اللہ اس ہستی پر انتہائی درد ناک ضربیں لگا رہی ہے۔
جہاں تک 109 ملین مصری عوام کا تعلق ہے، فلسطین کے ساتھ ان کی مشترکہ سرحدوں کے باوجود، وہ ایک پیالہ پانی بھی لانے کے قابل نہیں ہیں جب تک امریکہ اور اسرائیل سے اجازت نہ ملے۔ یہ لوگ کہتے ہیں ہم مسلمان ہیں، اگر واقعی میں دل میں ایمان ہوتا تو فلسطینی مسلمان بھائیوں کی مدد کرتے۔ مکار و عیار طیب اردوغان کا بھی یہی حال ہے۔ گذشتہ ایک ماہ سے دغلاپن دکھا رہا ہے۔ زبان سے صرف مذمت کرتا ہو نظر آیا ہے۔ شرم ہے ان پر جو اسے ہیرو بنانے میں اپنے میں کمزور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
ایران، عراق، شام، لبنان، یمن اور فلسطین کی ہمت اور دلیری کا تذکرہ لازم ہے کہ ان کے سامنے امریکہ اور اسرائیل اتنے بڑے طاقتور ہوتے ہوئے بھی مکڑی کے جالے کے برابر ہیں کیونکہ یہ حیدر کرار کے ماننے والے ہیں جس نام سے صیہونی و باطل طاقتیں بہت خوفزدہ رہتی ہیں۔
نتیجہ لبنانی مسیحی خاتون کے اظہار خیال سے۔ لبنانی مسیحی خاتون جولیا پطرس، سید حسن نصراللہ کی شخصیت و عظمت کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہے "ہمیں چاہیے کہ سید مقاومت کی عبا لیکر اس کے ٹکڑے اپنے بچوں کے ماتھے لگائیں تاکہ ان میں جذبۂ حب الوطنی پیدا ہو!